بہت سے مسائل ہیں‘ جو قوم کو بطور قوم درپیش رہتے ہیں۔ ہر قوم کا اجتماعی مزاج ان مسائل کی ترجیح کو طے کرتا ہے۔ مغرب اور مشرق میں ایک واضح فرق ہے کہ ان دونوں خطوں کی ثقافت میں اختلاف کے باعث مسائل کی ترجیحات میں بھی واضح فرق نظر آتا ہے۔ لیکن پوری دنیائے جدید کے اسلامی ممالک میں مسائل کی فہرست میں اولین مسئلہ ان کے مذہبی امتیاز کا تحفظ اور بقا ہے۔ اسلامی دنیا کے ہر دور میں ان کے دین کا امتیازی عقیدہ توحید و رسالت دیگر اقوام اور دیگر مقامی ثقافتوں سے ممتاز رہا ہے اور مسلمان اس بنیادی عقیدے کے تحفظ و بقا کے لیے اپنا ایک جداگانہ تشخص رکھتے ہیں۔ یہ ایک متواتر اور مسلمہ تاریخ ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر عقیدہ توحید و رسالت کی اہمیت و عظمت سے کنارہ کش نہیں ہوتے۔ مسلمانوں کی سیاسی قیادت کی مصلحتیں اور ان کے غیر مضبوط رویوں کی وجہ سے بہت سی غیر مسلم اقوام اور ان اقوام کے دانشور ‘ اہل مذہب اسلامی دنیا کے اس بنیادی عقیدہ توحید و رسالت پر ظاہری اور خفیہ انداز سے حملہ آور رہے ہیں۔ اور یہ سلسلہ کسی بھی مرحلہ تاریخ پر مکمل طور پر ختم نہ ہو سکا۔ اسلام دشمن اور اسلامی معاشرے میں موجود منافقین نے فطرت شر کے اس انداز کو تحریری،تقریری‘ جابرانہ اور منافقانہ انداز سے جاری رکھا ہوا ہے۔ مسلمانوں میں اس بدترین خرابی کا احساس اس وقت ہوتا ہے‘ جب کار شیطانی کا سحر اپنی جملہ خرابیوں سمیت ان کے ایمان کو چیلنج کرتا ہے۔ کسی بھی نہایت دل آزار اور واضح تحریر سے معاملہ ان کے بس میں نہیں ہوتا۔ مذہبی ادارہ اور مذہبی اجارہ‘ مسالک کی تقسیم کی صورت میں مثبت نتائج دینے سے قاصر ہوتا ہے۔ مسلمانوں میں مکاتب فکر کے اختلاف نے آہنی پردوں(Iron Curtains)کو اتنا زیادہ مضبوط کر دیا ہے کہ ہماری اجتماعیت قابل تشویش حد تک تفریق کا شکار ہے۔ کسی بھی پہلو سے مرمت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے بہت کام رفو کا نکلتا ہے۔ اس لیے بزعم خود دانا لوگوں نے وقتی مصلحت کو اپنا روزگار بنا لیا ہے۔ قلم اور زبان دونوں کا نرخ حسب استطاعت وصول کرتے ہیں۔ کچھ دانا لوگ نادانی کو دانائی کا چوکیدار بناتے ہیں اور اپنے معاشی بند کے پشتے کو پرائی مٹی سے مضبوط کرنے کے ماہر ہوتے ہیں اطلاعات و خبر کے زبانی اور قلمی ذرائع نے غیر اہم معاشرتی مسائل کو مرنے جینے کا مسئلہ بنا کر جو اودھ مچایا ہوا ہے۔ اس ناقوس بلا خیز کی صدائے جگر پاش میں دین کے حمیت کے نغمۂ جاں سوز کی آواز دب کر رہ گئی ہے۔ کسی کے ہاں حمیت دینی کی بیداری کی آواز نہیں اٹھائی جاتی۔ فقیر اپنے پروگرام صبح نور میں اذان حق کا ایمانی فریضہ ادا کرتا ہے۔ یہ اپنے ایمانی جذبات کی ترجمانی تو ہے لیکن اجتماعیت کی بیداری کے لیے آواز کی قوت میں یکجائی اور یکسانیت کا ہونا بھی تو ضروری ہے۔ یہ مسئلہ ذوقی یا انفرادی نہیں ہے۔ بلکہ پورے عالم اسلام کی بقا کے لیے شہ رگ کے تحفظ میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسلامی ممالک کے مصلحت پسند حکمران جن کے دلوں پر انجانے خوف کے غلاف ہیں‘ کبھی آنکھیں موند لیتے ہیں اور کبھی زبان کو تالو سے لگا کر اپنے کرسیانہ ذوق میں مست رہتے ہیں۔ ہالینڈ کے بدبختِ خلائق سیاستدان نے شقاوت بہیمانہ کی حد کردی تو عالم اسلام میں سخت ردعمل ہوا اور یہ سلسلہ طویل عرصے سے جاری ہے۔ عالم کفر ایک ملت واحدہ ہے اور وہ طے شدہ نظام الاوقات کے مطابق اس خرابی کا منظم اہتمام کرتی ہے دراصل یہ ایک ایسی گوریلا فکری‘ اعتقاداتی جنگ ہے جو امت مسلمہ کو ہمیشہ ہی غیر منظم رکھتی ہے۔ عالم کفر کی اس گوریلا جنگ کے اور بہت سے خفیہ محاذ ہیں اور ان محاذوں میں مورچہ بند ان کے فکری راہ نمائوں کی تلقین اس قدر پختہ اور مربوط ہے کہ ان کے مقابلے میں ہمارے ملی دانشور اور سیاسی راہنما بالکل ہی پسپا نظر آتے ہیں عقیدے کے تحفظ کے لیے فکری راہنمائی تو مذہبی قیادت سے میسر آتی ہے اور اس کے لیے عملی میدان دانشور، صاحبان علم اور قوم کے ادیب و شاعر تیار کرتے ہیں۔ مذہب سے وابستہ جذباتی افراد اگرچہ بیداری کے ماحول میں تازگی اور حرارت کا سرمایہ فراہم کرتے ہیں۔ مگر مقاصد کے حصول اور نصب العین تک راہداری اور محفوظ راہداری کا تغمہ امتیاز اسی کار خیر سے وابستہ ہے کیا مگر دین کا علم سربلند ہے تو دنیاوی و جاہتیں بھی برقرار رہیں گی اور کالم نویس حضرات کی دستار عزت کا شملہ بھی باوقار نظر آئے گا جب وہ اپنی عزت و عظمت کو نعلین مصطفی ﷺ کے شرف سے وابستہ کریں گے۔ ٹی وی چینلز پر موجود چہروں پر غازہ نور نظر آئے گا جب اینکر اور شریک گفتگو کی نیت اور زبان کا قبلہ سرکار کونین سیدنا محمد مصطفی ﷺ کی ناموس کی جانب سیدھا نظر آئے گا۔ ایک درد مند کی زنبیل ایمان میں سوائے جنون محبت مصطفی ؐکے اور کیا نعمت ہو سکتی ہے۔ کسی بھی مسلمان اور حساس دل مومن کی متاع عزیز اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی زبان اور قلم کو راہ محبت رسول ﷺ میں دفاع کا ہتھیار بنا کر رکھے۔ ہاں یہ زبان و قلم فرشتوں کے نزدیک بھی علامت تقدس بن جائیں گے۔ اور انسانی نسلوں کے لیے برکتوں کے زاویے قرار پائیں گے اگر اس کا جو ہر تکلم اور اثاثہ تحریر چشمہ توحید و رسالت سے خیرات حیات پائے۔ ؎ بدن میں ہے جاں تمہارے لئے (ﷺ) دہن میں زبان تمہارے لیے(ﷺ) ہم آئے یہاں تمہارے لیے (ﷺ) اٹھیں گے وہاں تمہارے لیے(ﷺ) (صلی اللہ علیک وسلم)